Urdu Deccan

Tuesday, June 1, 2021

میر خوشحال فیضی

 آنکھ سے اوجھل کہساروں میں 

گم ہے ذہن یہ نظاروں میں 


شرم سے ہو گئے پانی پانی 

نام تھے جن کے غداروں میں 


اس کی چاہت کرکے ہم نے 

خود کو ڈالا انگاروں میں 


عزت اتنی سستی کہاں ہے 

ملتی نہیں یہ دستاروں میں 


بات کرو بس پیار کی لوگو

کچھ نہیں رکھا ہتھیاروں میں 


قتل ہوئے ہیں، غم نہیں لیکن 

للکارا ہے تلواروں میں 


اگلے پل کچھ بھی کر لیں گے 

خدشہ رہتا فنکاروں میں 


مجھ کو فیضی دُکھ ہوا سن کر 

نام ترا ہے غمخواروں میں


میر خوشحال فیضی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...