آنکھ سے اوجھل کہساروں میں
گم ہے ذہن یہ نظاروں میں
شرم سے ہو گئے پانی پانی
نام تھے جن کے غداروں میں
اس کی چاہت کرکے ہم نے
خود کو ڈالا انگاروں میں
عزت اتنی سستی کہاں ہے
ملتی نہیں یہ دستاروں میں
بات کرو بس پیار کی لوگو
کچھ نہیں رکھا ہتھیاروں میں
قتل ہوئے ہیں، غم نہیں لیکن
للکارا ہے تلواروں میں
اگلے پل کچھ بھی کر لیں گے
خدشہ رہتا فنکاروں میں
مجھ کو فیضی دُکھ ہوا سن کر
نام ترا ہے غمخواروں میں
میر خوشحال فیضی
No comments:
Post a Comment