Urdu Deccan

Saturday, July 31, 2021

واصف علی واصف

 میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ

میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا


میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی

ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا


میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں

میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ


کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں

خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ


میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں

میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ


میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں

میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ


میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں

اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ


واصف علی واصفؔ


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...