یوم پیدائش 29 جولائی 1975
ترے درویش جو احساس ِ زیاں رکھتے ہیں
ایسے طوفان ، سمندر بھی کہاں رکھتے ہیں
تم یہ مرجھائے ہوئے پھول کہاں لے آئے ؟
ہم تو متروک صحیفوں کو یہاں رکھتے ہیں
بیٹھ جاتے ہیں درختوں کی گھنی چھاؤں میں
بوڑھے ماں باپ کی یادوں کو جواں رکھتے ہیں
اب تو ہر شخص ہی اندازہ لگا لیتا ہے
ہم اذیت ہو کہ خواہش ہو ، نہاں رکھتے ہیں
وہ بھی لب ہیں جو مٹا دیتے ہیں خود گھونٹ کی پیاس
وہ بھنور بھی ہیں جو کشتی کو رواں رکھتے ہیں
سب کی قسمت میں نہیں ہوتا ہے پنجرے کا سکون
کچھ پرندے ہیں جو محفوظ مکاں رکھتے ہیں
ہم فقیروں کی اداسی نہیں جانے والی
ہم بہاروں سے چھپا کر یہ خزاں رکھتے ہیں
بند کی جاتی نہیں کوئی اچانک سے کتاب
عشق رستے میں بھی چھوڑیں تو نشاں رکھتے ہیں
جانے بازار میں کیا شعبدہ برداری ہے !
دام بڑھ جاتے ہیں انگلی کو جہاں رکھتے ہیں
ہم بھی شانوں کے فرشتوں کی طرح ہیں جو ضمیر
لکھتے سب کچھ ہیں مگر بند زباں رکھتے ہیں
ضمیر قیس
No comments:
Post a Comment