Urdu Deccan

Saturday, July 31, 2021

اظہر غوری

 یوم پیدائش 28 جولائی 1962


بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا

کہیں سراغ وفا قصہ مختصر نہ ملا


مچل رہے تھے جبین نیاز میں سجدے

یہ اور بات مقدر سے سنگ در نہ ملا


کریدتے رہے سب دوست میرے زخموں کو

سبھی نے طنز کیے کوئی چارہ گر نہ ملا


وہ کربلا تو نہیں دوستوں کی بستی تھی

تڑپتے رہ گئے پانی کو بوند بھر نہ ملا


ہجوم یاروں کا تھا میرے ساتھ ساحل تک

سمندروں میں مگر کوئی ہم سفر نہ ملا


لکھا کے لائے تھے محرومیاں مقدر میں

تجھے دعا نہ ملی اور مجھے اثر نہ ملا


ابھی تو اشک کی اک بوند سے یہ طوفاں ہے

قدم سنبھال لے اور آہ میں شرر نہ ملا


قدم بڑھائے تو پایاب تھا ہر اک دریا

مگر تلاش تھی جس کی وہی گہر نہ ملا


ہم اپنی زیست کو کرتے بھی کیا رقم اظہرؔ

ورق ملا بھی جو سیمیں تو آب زر نہ ملا


اظہر غوری


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...