یوم پیدائش 28 جولائی 1962
بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا
کہیں سراغ وفا قصہ مختصر نہ ملا
مچل رہے تھے جبین نیاز میں سجدے
یہ اور بات مقدر سے سنگ در نہ ملا
کریدتے رہے سب دوست میرے زخموں کو
سبھی نے طنز کیے کوئی چارہ گر نہ ملا
وہ کربلا تو نہیں دوستوں کی بستی تھی
تڑپتے رہ گئے پانی کو بوند بھر نہ ملا
ہجوم یاروں کا تھا میرے ساتھ ساحل تک
سمندروں میں مگر کوئی ہم سفر نہ ملا
لکھا کے لائے تھے محرومیاں مقدر میں
تجھے دعا نہ ملی اور مجھے اثر نہ ملا
ابھی تو اشک کی اک بوند سے یہ طوفاں ہے
قدم سنبھال لے اور آہ میں شرر نہ ملا
قدم بڑھائے تو پایاب تھا ہر اک دریا
مگر تلاش تھی جس کی وہی گہر نہ ملا
ہم اپنی زیست کو کرتے بھی کیا رقم اظہرؔ
ورق ملا بھی جو سیمیں تو آب زر نہ ملا
اظہر غوری
No comments:
Post a Comment