Urdu Deccan

Saturday, July 31, 2021

علی راحل بورے والا

 چڑھتے ہوٸے سورج کا پرستار ہوا ہے

مسلک یہی دنیا کا مرے یار ہوا ہے


مطلوب رہی خوشیاں زمانے کو ہمیشہ

کب کون یہاں غم کا طلبگار ہوا ہے


جس نے بھی کیا ورد اناالحق کا یہاں پر

دنیا کی نظر میں وہ گنہگار ہوا ہے


جو تاج محل سپنوں میں تعمیر کیا تھا

جب آنکھ کھلی میری وہ مسمار ہوا ہے


کانٹوں کی یہاں داد رسی کون کرے گا

ہر بندہ ہی پھولوں کا طرفدار ہوا ہے


حقدار رعایت کا کسی طور نہیں وہ

جو شخص محبت کا خطاوار ہوا ہے


ہر رستے کی دیوار گراٸی میں نے جس کی

اب وہ ہی مری راہ کی دیوار ہوا ہے

 

کیا پوچھتے ہو اس کے میاں وعدے کا انجام

وہ ہی ہوا انجام جو ہر بار ہوا ہے


سینچا ہے اسےخون جگر سے میں نے رَاِحِلؔ

یونہی تو نہیں پیڑ ثمر بار ہوا ہے


علی رَاحِلؔ بورے والا


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...