دل کی بنیاد ہے قائم اسی تنویر کے ساتھ
اب یہ دیوار گرے گی تری تصویر کے ساتھ
کون ہوگا مرے احساس کی الجھن میں شریک
کس کی زنجیر کا رشتہ مری زنجیر کے ساتھ
تم کو سوچا تھا کہ تم آ گئے حیرت ہے مجھے
خواب دیکھا نہ تھا میں نے کبھی تعبیر کے ساتھ
ہمہ تن گوش ہوئی جاتی ہے کیوں بزمِ خیال
کوئی تو محوِ سخن ہے مری تصویر کے ساتھ
دھڑکنیں دل کی ہم آہنگ ہوئیں آخرِ شب
گھر کے دروازے کی بجتی ہوئی زنجیر کے ساتھ
گل کدے شہر کی تاریخ میں یوں لکھتے ہیں
ہم تو مسمار ہوئے ہر نئی تعمیر کے ساتھ
اپنے لشکر ہی کا حصّہ ہے یہ ورنہ اے یاسؔ
شاخِ گل کوئی بھی رکھتا نہیں شمشیر کے ساتھ
نور محمد یاس
No comments:
Post a Comment