ایک چہرہ گلاب جیسا ہے
یعنی وہ میرے خواب جیسا ہے
سارے منظر بدل گئے لیکن
ایک منظر سراب جیسا ہے
کون مارا گیا ہے مقتل میں
وقت سارا عذاب جیسا ہے
سب لٹا ہم چکے محبت پر
سوختہ دل کباب جیسا ہے
میر کے راستے پہ چل باسط
حال، خانہ خراب جیسا ہے
باسط ادیب
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...
No comments:
Post a Comment