یہ دل آنسو بہا رہا ہے کیا
کوئی دل سے نکل گیا ہے کیا
مثلِ غالب سمجھ نہ پایا میں
دلِ نادان کو ہوا ہے کیا
جس کو بیعت کے واسطے کاٹا
سر وہ نیزے پہ جھک گیا ہے کیا؟
ماں سے بچھڑے ہوئے سے مت پوچھو
کہ حفاظت کی وہ دعا ہے کیا
توڑ کر دل مرا وہ کہنے لگی
خیریت، تم کو کچھ ہوا ہے کیا؟
یعنی دینا ہے حشر میں بھی حساب
عشق کی اس قدر سزا ہے کیا
کیا کہا عشق ہو گیا ہے میاں؟
عہد مرنے کا کر لیا ہے کیا؟
تم زلیخا تو ہو مگر سوچو
آج یوسف کوئی رہا ہے کیا؟
دوست حیدر کہیں گے سن کے خبر
اچھا شاعر تھا مر چکا ہے کیا
شجاع حیدر
No comments:
Post a Comment