کسی سے ہم کبھی بعض و عناد رکھتے نہیں
ستمگروں سے مگر اتّحاد رکھتے نہیں
ہمارے ظاہر و باطن ہیں مثلِ آئینہ
ریا کا چہروں پہ اپنے ضماد رکھتے نہیں
ہیں ارد گرد تمنّاؤں کے حسیں لشکر
ہم اپنے ساتھ کبھی انفراد رکھتے نہیں
کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے امیرِ شہرِ سخن
جو فکر و فن کی کوئی جائیداد رکھتے نہیں
ہے اپنا علمِ ریاضی بہت ہی مستحکم
جو منقسم ہمیں کر دے وہ عاد رکھتے نہیں
گھروں سے نکلیں جو باندھے ہوئے سروں سے کفن
وہ اپنے ذہن میں خوفِ فساد رکھتے نہیں
جہاں بھی ٹھہرے قدم ، سو گئے تھکن اوڑھے
ہم اپنے رختِ سفر میں مہاد رکھتے نہیں
وہ لوگ کرتے ملے دعوۓ مسیحائی
جو اپنے درد کا خود انسداد رکھتے نہیں
بنے جو اوروں کی تذلیل کا سبب کامل
غزل میں اپنی ہم ایسا مواد رکھتے نہیں
کاملؔ جنیٹوی
No comments:
Post a Comment