یوم پیدائش 08 جولائی 1990
مشکلوں میں رہ کے اب ہر خوشی نہیں ملتی
زندگی تو ملتی ہے پر بھلی نہیں ملتی
جب سے مل گئی دولت بھول بیٹھے یوں رب کو
ان کی اب دعاؤں میں عاجزی نہیں ملتی
پھر رہا ہے بن کے تو قوم کا مسیحا جو
تجھ میں کچھ بزرگوں سی سادگی نہیں ملتی
بیٹھ کر جو کرتے ہیں محفلوں میں لفاظی
قول میں بھی اب ان کے دل کشی نہیں ملتی
دیکھنے میں لگتے ہیں جو بہت ہی بھولے سے
لب جو ان کا وا ہوتا کچھ ہنسی نہیں ملتی
شکر رب کی نعمت کا جو سدا نہیں کرتے
ان کو رب کی دولت بھی دائمی نہیں ملتی
جان بھی اگر عالم تم انھیں ہبہ کردو
ظالموں کی آنکھوں میں کچھ نمی نہیں ملتی
عالم فیضی
No comments:
Post a Comment