Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

عنبر بہرائچی

 یوم پیدائش 05 جولائی 1949


گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا

کہ جس کا لمس بہاروں میں رنگ بھرتا تھا


جہاں پہ سادہ دلی کے مکیں تھے کچھ پیکر

وہ جھونپڑا تھا مگر پر شکوہ کتنا تھا


مشام جاں سے گزرتی رہی ہے تازہ ہوا

ترا خیال کھلے آسمان جیسا تھا


اسی کے ہاتھ میں تمغے ہیں کل جو میداں میں

ہماری چھاؤں میں اپنا بچاؤ کرتا تھا


یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ

مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا


ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا

یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا


وہ ایک جست میں نظروں سے دور تھا عنبرؔ

خلا میں صرف سنہرا غبار پھیلا تھا


عنبر بہرائچی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...