یوم پیدائش 05 جولائی 1949
گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا
کہ جس کا لمس بہاروں میں رنگ بھرتا تھا
جہاں پہ سادہ دلی کے مکیں تھے کچھ پیکر
وہ جھونپڑا تھا مگر پر شکوہ کتنا تھا
مشام جاں سے گزرتی رہی ہے تازہ ہوا
ترا خیال کھلے آسمان جیسا تھا
اسی کے ہاتھ میں تمغے ہیں کل جو میداں میں
ہماری چھاؤں میں اپنا بچاؤ کرتا تھا
یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ
مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا
ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا
یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا
وہ ایک جست میں نظروں سے دور تھا عنبرؔ
خلا میں صرف سنہرا غبار پھیلا تھا
عنبر بہرائچی
No comments:
Post a Comment