یوم پیدائش 17 جولائی 1977
خوابِ طیبہ کے سوا میری نظر میں کچھ نہیں
جز ثنائے مصطفیٰ اس بے ہنر میں کچھ نہیں
بس درِ شاہِ امم کی خاک ہی درکار ہے
فائدہ مالِ جہاں، لعل و گہر میں کچھ نہیں
راحتیں ہی راحتیں ہیں، شوق ہوتا ہے فزوں
مشکلیں شہرِ پیمبر کے سفر میں کچھ نہیں
مدحتِ خير البشر میں رہتا ہوں ایسا مگن
کام مجھ کو اور تو شام و سحر میں کچھ نہیں
سرورِ کون و مکاں کی عظمتیں پہچانیے
ورنہ لوگو اس جہانِ خشک و تر میں کچھ نہیں
مالکِ ارض و سما کی ہے محبت جاگزیں
کون کہتا ہے مرے قلب و جگر میں کچھ نہیں
رحمتوں کا بخششوں کا در مدینے میں کھلا
بے ادب کہتے رہیں ان کے نگر میں کچھ نہیں
ان کی ضو سے ہی درخشاں کر رہا ہے دنیا کو
نور ہے سرکار کا ویسے قمر میں کچھ نہیں
حاضرو ناظر ،شفیع ونور ہیں ،مختار ہیں
جو خلاف اس کے ہو عابد اس خبر میں کچھ نہیں
عابد علی عابد حافظ آبادی
No comments:
Post a Comment