صدق و وفا کی اب وہ روایت نہیں رہی
کہتے ہیں اہل دل وہ محبت نہیں رہی
کھا کر فریب مال و متاعِ جہان کے
شوقِ جنوں میں ہائے حرارت نہیں رہی
کیسے میں اعتبار کروں تیری بات پر
تیرے بیاں میں اب وہ صداقت نہیں رہی
دل کی خطا نہیں ہے یہ آنکھوں کا ہے قصور
ہے معذرت! کہ غم کی حفاظت نہیں رہی
تھا حوصلہ تو دشت و بیاباں میں سربہ کف
لڑتے تو تھے پر اب وہ شجاعت نہیں رہی
یادوں میں عکس آج بھی موجود ہے تیرا
گر درمیان اب وہ قرابت نہیں رہی
ٹوٹا کچھ اس طرح سے گماں میرے پیار کا
تا عمر وصلِ یار کی چاہت نہیں رہی
محسن کو مانگنے کا سلیقہ تو کر عطا
کہتے ہیں اب دعا میں اجابت نہیں رہی
محسن کشمیری
No comments:
Post a Comment