یوم پیدائش 09 جولائی 1939
گل بداماں حیات کیا ہوگی
اب خزاں سے نجات کیا ہوگی
کیف جاوید چاہئے مجھ کو
مستیء بے ثبات کیا ہوگی
ہر طرف چھا گئی ہے تیرہ شبی
دن جو یہ ہے تو رات کیا ہوگی
جب وہ آئیں گئے سامنے میرے
سوچتا ہوں کہ بات کیا ہوگی
لب پہ اللہ دل ہوس آلود
زاہدوں کی نجات کیا ہوگی
دیکھ کر ان کو ہوش اڑتے ہیں
حسن والوں سے بات کیا ہوگی
شاعر اس شوخ کی نگاہ کرم
مائل التفات کیا ہوگی
شاعر فتح پوری
No comments:
Post a Comment