یوم پیدائش 01 جولائی
واسطہ دیتے رہو لاکھ شناسائی کا
بھیڑ کردار نبھائے گی تماشائی کا
مجھ کو پایاب سمجھنے کی حماقت مت کر
تجھ کو اندازہ نہیں ہے مری گہرائی کا
بھائی! میں جیت گیا پھر بھی پشیماں ہوں بہت
دیکھ سکتا نہیں منظر تری پسپائی کا
فیصلے سارے لکھے جا چکے تھے پہلے ہی
منصفو ! تم نے ڈرامہ کیا سنوائی کا
جسم تھا یا گلِ لالہ کی لچکتی ڈالی
ذہن پر نقش ہے نقشہ تری انگڑائی کا
قلبِ شاعر پہ غزل جیسے کوئی نازل ہو
یوں خیال آئے کسی پیکرِ رعنائی کا
ضمیر احمد ضمیر
No comments:
Post a Comment