یوم پیدائش 31 جولائی 1945
کچھ اب کے رسم جہاں کے خلاف کرنا ہے
شکست دے کے عدو کو معاف کرنا ہے
ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت
ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے
وہ بولتا ہے تو سب لوگ ایسے سنتے ہیں
کہ جیسے اس نے کوئی انکشاف کرنا ہے
مجھے پتہ ہے کہ اپنے بیان سے اس نے
کہاں کہاں پہ ابھی انحراف کرنا ہے
چراغ لے کے ہتھیلی پہ گھومنا ایسے
ہوائے تند کو اپنے خلاف کرنا ہے
وہ جرم ہم سے جو سرزد نہیں ہوئے اظہرؔ
ابھی تو ان کا ہمیں اعتراف کرنا ہے
اظہر ادیب
No comments:
Post a Comment