یوم پیدائش 28 جولائی 1970
اپنی وحشت سے جو ڈرتا ہی چلا جاتا ہے
دل کے صحرا میں بکھرتا ہی چلا جاتا ہے
اس کی باتوں کا دیا جلتا ہے جب آنکھوں میں
شہر شب نور سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے
کم نہیں مے سے محبت میں خیالوں کا نشہ
آدمی حد سے گزرتا ہی چلا جاتا ہے
تیری آواز کے شاداب جہانوں سے پرے
کوئی ویرانی سے بھرتا ہی چلا جاتا ہے
دھوپ اس شہر کی گلیوں میں کہاں ٹھہرے گی
سائے پر سایہ اترتا ہی چلا جاتا ہے
وقت کا یہ ہے کہ ہر تلخی و شیرینی سمیت
سلسلہ وار گزرتا ہی چلا جاتا ہے
وصل کا ایک اشارا بھی بہت ہے ہم کو
ہجر کا زخم تو بھرتا ہی چلا جاتا ہے
اشفاق عامر
No comments:
Post a Comment