یوم پیدائش 28 جولائی
حدودِ ذات سے آگے سفر نہیں کروں گا
مَیں کائنات سے آگے سفر نہیں کروں گا
رہوں گا شعر کی دنیا میں مست و بے خود مَیں
قلم دوات سے آگے سفر نہیں کروں گا
تو کیا سرور سے آگے مجھے نہیں جانا ؟
تو کیا ثبات سے آگے سفر نہیں کروں گا ؟
عجیب دن تھا جو کہتا تھا میرے کانوں میں
مَیں آج رات سے آگے سفر نہیں کروں گا
تمھارے ساتھ ہی چلنا ہے مجھ کو منزل پر
تمھارے ساتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا
کُھلا جو مجھ پہ تو مَیں خود سے ہو گیا بے دخل
کہ مَیں حیات سے آگے سفر نہیں کروں گا
مَیں اک لکیر ہوں کھینچی ہے جو مقدر نے
سو تیرے ہاتھ سے آگے سفر نہیں کروں گا
تمھارے حکم کی تکمیل کرنا ہے مجھ کو
تمھاری بات سے آگے سفر نہیں کروں گا
یہ حدِ خاک مری زندگی ہے زیبؔ سو مَیں
اس احتیاط سے آگے سفر نہیں کروں گا
اورنگ زیبؔ
No comments:
Post a Comment