یوم پیدائش 18 جولائی 1924
پیڑوں سے دھوپ پچھلے پہر کی پھسل گئی
سورج کو رخصتی کا افق سے پیام ہے
پھیلا ہوا ہے کمرے میں احساس بے حسی
خاموشیوں سے بے سخنی ہم کلام ہے
آہٹ ہو قفل کھلنے کی دروازہ باز ہو
آنکھوں کو اب یقیں ہے یہ امید خام ہے
یہ عمر سست گام گزرتی ہے اس طرح
ہر آن دل کو وقت شماری سے کام ہے
رہتی ہے صرف اس سے تصور میں گفتگو
آرام گاہ روح میں جس کا مقام ہے
وہ ہم سفر جو چھوڑ کے آگے چلے گئے
اے موجۂ ہوا انہیں میرا سلام ہے
ہر اک کو ناگزیر ہوئی دعوت فنا
ٹھہراؤ ہے سحر کو نہ شب کو دوام ہے
ہیں ان کہے بہت سے سخن ہائے گفتنی
افسانۂ حیات سدا ناتمام ہے
دن جا رہا ہے جیسے جدا ہو رہے ہیں دوست
کیسی بجھی بجھی سی یہ گرمی کی شام ہے
منیب الرحمن
No comments:
Post a Comment