یوم پیدائش 04 جولائی 1922
دل ہے وابستہ مرا حسرت ناکام کے ساتھ
تازہ ہو جاتے ہیں سب زخم ترے نام کے ساتھ
اس نے ہر حلق تمنا پہ چلایا خنجر
یوں ہے پیکار مری گردش ایام کے ساتھ
درد الفت مرا کرتا ہے ترنم ریزی
کرنیں رو رو کے گلے ملتی ہیں جب شام کے ساتھ
سنگ بن جاتا اگر میں بھی برائے عشرت
زندگی پھر تو گزرتی بڑے آرام کے ساتھ
ہر جہت سے رہا دنیا میں سراسر ناکام
جی رہا ہوں میں خوشی سے اسی الزام کے ساتھ
راہیٔ زیست اگر عزم سفر ہے پرجوش
پھر تو وابستہ ہے منزل ترے ہر گام کے ساتھ
یہ بنا دیتا ہے انساں کو مکمل پتھر
یوں رہی دہر میں نفرت مجھے آرام کے ساتھ
آتش غم نے تپا کر کیا کندن مجھ کو
اسی باعث تو جلیؔ عشق ہے آلام کے ساتھ
جلی امروہوی
No comments:
Post a Comment