Urdu Deccan

Monday, July 26, 2021

فوزیہ شیخ

 یوم پیدائش 15 جولائی 1982


پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے

وہ کھینچ لے گیا دریائے غم کے پار مجھے


چراغ راہ محبت ہوں طاق میں رکھنا

غبار قریۂ نفرت میں مت اتار مجھے


میں اس کی یاد میں راتوں کو سو نہیں سکتی

وہ دور رہ کے بھی رکھتا ہے اشک بار مجھے


کٹی پتنگ سی اٹکی ہوں شاخ نازک پر

ہوا کا ہاتھ بھی کرتا ہے تار تار مجھے


مٹا دے مجھ کو یا رکھ لے سمیٹ کر دل میں

تو ہجر جیسی اذیت سے مت گزار مجھے


تو جانتا ہے کہ میں بے گھری سے ڈرتی ہوں

نکال دل سے نہ ایسے تو بار بار مجھے


میں انتظار کے برزخ میں جلتی رہتی ہوں

ہزار وسوسے رکھتے ہیں بے قرار مجھے


میں چاہتی ہوں اسے بھولنا مگر فوزیؔ

قسم خدا کی نہیں خود پہ اختیار مجھے


فوزیہ شیخ


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...