یوم پیدائش 15 جولائی 1982
پھر اک خوشی سے کیا اس نے ہمکنار مجھے
وہ کھینچ لے گیا دریائے غم کے پار مجھے
چراغ راہ محبت ہوں طاق میں رکھنا
غبار قریۂ نفرت میں مت اتار مجھے
میں اس کی یاد میں راتوں کو سو نہیں سکتی
وہ دور رہ کے بھی رکھتا ہے اشک بار مجھے
کٹی پتنگ سی اٹکی ہوں شاخ نازک پر
ہوا کا ہاتھ بھی کرتا ہے تار تار مجھے
مٹا دے مجھ کو یا رکھ لے سمیٹ کر دل میں
تو ہجر جیسی اذیت سے مت گزار مجھے
تو جانتا ہے کہ میں بے گھری سے ڈرتی ہوں
نکال دل سے نہ ایسے تو بار بار مجھے
میں انتظار کے برزخ میں جلتی رہتی ہوں
ہزار وسوسے رکھتے ہیں بے قرار مجھے
میں چاہتی ہوں اسے بھولنا مگر فوزیؔ
قسم خدا کی نہیں خود پہ اختیار مجھے
فوزیہ شیخ
No comments:
Post a Comment