خود نمائی کا نشہ دل سے اتر جانے کے بعد
زندگی چیز ہے کیا جانا بکھر جانے کے بعد
حوصلہ یار کبھی کم نہیں ہونے دینا
جیت پانا ترا ممکن نہیں ڈر جانے کے بعد
لوٹ کر آتا نہیں وقت سنبھل جاؤ ابھی
ہاتھ ملنا نہ پڑے وقت گذر جانے کے بعد
چاہے تریاق ہو یا زہر ہو یا مے یا دوا
رنگ لاتی نہیں شے کوئی اثر جانے کے بعد
تھی روانی تو بہت شور مچاتا تھا جو
کتنا خاموش ہے وہ دریا ٹھہر جانے کے بعد
جب برے تھے تو کسی نے بھی نہیں کی تنقید
لوگ تنقید بھی کرتے ہیں سدھر جانے کے بعد
چاہے بادۂِ محبت ہو یا مے صبر کی ہو
یار پیمانہ چھلک جاتا ہے بھر جانے کے بعد
کر گزر کام کوئی ایسا کہ دنیا ماجدؔ
یاد تجھ کو رکھے صدیوں ترے مر جانے کے بعد
ہارون علی ماجدؔ عادل آبادی
No comments:
Post a Comment