مجھے سمجھنے کا ہے جو دعویٰ تو یہ بتاؤ کہ کیا ہوا ہے
ہے آنکھ نم کیوں یہ دل ہے غمگیں فضا بھی جیسے خفا خفا ہے
ہے دل کا عالم دھواں دھواں سا پلک پلک پر ہیں خواب اٹکے
یہ شام اتری ہے کیسی گھر میں دیا جلا ہے نہ در کھلا ہے
میں سر جھکائے کھڑی ہوں کب سے ہے دور تک بس وہی اندھیرا
مرا مقدر ہے یہ سیاہی نہ صبح جاگی نہ دن چڑھا ہے
یوں تم نہ حیرت سے مجھکو دیکھو یقین مانو کہ سچ یہی ہے
گیا جو اک بار کب ہے لوٹا یہی ہے دیکھا یہی سنا ہے
نہ راستوں پر گلاب مہکے نہ سایہ کرنے سحاب آئے
کہ یونہی کانٹوں پہ چلتے چلتے یہ زندگی کا سفر کٹا ہے
نبھانا رشتہ اسے بھی مشکل مرے بھی دل میں جگہ نہیں ہے
نہ فرقتوں میں کسک رہی ہے نہ قربتوں میں مزا رہا ہے
ہوانے دی تھی یہی بشارت گھڑی دعا کی یہی تھی شاید
ترے تسلط سے جان نکلی تو پھر ہی اذن سفر ملا ہے
نائلہ راٹھور
No comments:
Post a Comment