یوم پیدائش 03 جولائی 1935
ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے
میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے
دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو
ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے
ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری
زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے
گاہے گاہے اب بھی چلے جاتے ہیں ہم اس کوچے میں
ذہن بزرگی اوڑھ چکا دل کی نادانی باقی ہے
کچھ غزلیں ان زلفوں پر ہیں کچھ غزلیں ان آنکھوں پر
جانے والے دوست کی اب اک یہی نشانی باقی ہے
نئی نئی آوازیں ابھریں پاشیؔ اور پھر ڈوب گئیں
شہر سخن میں لیکن اک آواز پرانی باقی ہے
کمار پاشی
No comments:
Post a Comment