یوم پیدائش 03 جولائی 1958
انسان کوئی بھی تو فرشتہ بنا نہیں
سچ پوچھیے تو کوئی یہاں بے خطا نہیں
قإئم رہے جو توبہ پہ ساقی کے روبرو
ایسا تو میکدے میں کوئی پارسا نہیں
ہم ہیں قصور وار ہمیں اعتراف ہے
تہمت لگانے والے بھی تو دیواتا نہیں
وہ جس کو اپنے دل کا فسانہ سنا سکیں
ہم کو تو ایسا شخص ابھی تک ملا نہیں
چہرہ بدل بدل کے وہ آیا ہے بار بار
لیکن کسی بھی چہرے میں مجھ سے چھپا نہیں
وہ بے وفا تھا چھوڑ کے مجھ کو چلا گیا
میں بھول جاؤں اس کو ، مگر بھولتا نہیں
کشتی کو تونے چھوڑ دیا یوں ہی نا خدا
کیا تو سمجھ رہا ہے ہمارا خدا نہیں
اس کے قریب جاؤں تو ملتا نہیں ہے وہ
اور دور ہو بھی جاؤں تو مجھ سے جدا نہیں
زیبی رفیق ہوتے ہیں سب اچھے دور کے
جب وقت ہو کڑا کوئی پہچانتا نہیں
زیب النساء زیبی
No comments:
Post a Comment