Urdu Deccan

Saturday, July 17, 2021

ساغر مہدی

 وم پیدائش 14 جولائی 1936


ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں

زندگی جیسے یوں ہی ٹھوکریں کھانا ہے یہاں


نغمہ نوحہ ہے یہاں چیخ ترانہ ہے یہاں

بات سو ڈھنگ سے کرنے کا بہانہ ہے یہاں


قہقہہ اپنی تباہی پہ لگانا ہے یہاں

اس خزانہ کو بہر حال لٹانا ہے یہاں


کل کتب خانوں کی ہم لوگ بھی رونق ہوں گے

ہر حقیقت کے مقدر میں فسانہ ہے یہاں


اس خرابے سے نکل کر لب دریا کیا جائیں

ایک قطرے میں سمندر کا فسانا ہے یہاں


کیسے بے حرف و صدا درد کی روداد کہیں

ایک ایک لفظ تو صدیوں کا پرانا ہے یہاں


گھر سے گھبرا کے جو نکلا تو یہ بولی دہلیز

پاؤں شل ہوں گے تو پھر لوٹ کے آنا ہے یہاں


ہر طرف سوچ میں ڈوبے ہوئے یکساں چہرے

جیسے ہر چار طرف آئینہ خانہ ہے یہاں


ساغر مہدی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...