ہر ایک لمحہ جنوں میں اپنی مثال ہو گا یہ طے ہوا تھا
بدن کے زخموں سے خون رسنا خیال ہو گا یہ طے ہوا تھا
یہاں جدا ہونے والوں کے درمیان رنجش تو عام شے ہے
مرا تمہارا مگر تعلق مثال ہوگا یہ طے ہوا تھا
تُو عہد کو توڑ کر بھی چاہے ہے کچھ نہ پوچھوں میں اِس کی بابت
کوئی بھی پیچھے ہٹا تو اُس سے سوال ہوگا یہ طے ہوا تھا
تو کیوں مری جاں اداس ہوں میں اگر تُو مسرور لگ رہا ہے
بچھڑ کے دونوں کا ایک جیسا ہی حال ہوگا یہ طے ہوا تھا
کسی کے دل میں بس ایک لمحے کو بھی خیالِ جفا گر آئے
تو رہتی سانسوں تک اُس گھڑی کا ملال ہوگا یہ طے ہوا تھا
جو پھر سے اب ربط جڑ رہے ہیں تو بیچ میں یہ خلا سا کیوں ہے
جہاں سے ٹوٹا وہیں سے رشتہ بحال ہوگا یہ طے ہوا تھا
وہ زخم در زخم دے رہے ہیں تو کوئی پوچھے حسیؔن اُن سے
پرانے زخموں کا پہلے کچھ اندمال ہوگا یہ طے ہوا تھا
صدام حسیٙن
No comments:
Post a Comment