یوم پیدائش 09 اگست 1968
کھینچے ہے اس طرح سے جنونِ سفر مجھے
وحشت سے تک رہی ہیں سبھی رہگزر مجھے
ہجراں نصیب شب نے کیا ہے یوں بے اماں
"تاروں کی چھاؤں لگتی ہے اب دوپہر مجھے"
بے اعتبار کرنے لگا ہے جہانِ شوق
آ اے غمِ حیات بنا معتبر مجھے
وہ حالِ بے خیالیء حالت ہے کیا کہوں
ملتی ہے دوسروں سے اب اپنی خبر مجھے
دستارِ عز و جاہ بچا لوں گا ہے یقیں
دینا مگر پڑے گا بدل میں یہ سر مجھے
آلامِ روزگارِ جہاں سے بچا اگر
زنجیرِ پا کرینگے یہ دیوار و در مجھے
زخموں نے میرے بخشا عروجِ کمالِ فن
ڈھونڈیں گے میرے بعد سبھی چارہ گر مجھے
آنکھوں میں ان کی میرا اجالا ہے آج بھی
جو کہہ رہے تھے دودِ چراغِ سحر مجھے
نوشاد اشہر اعظمی
No comments:
Post a Comment