دل کی اجڑی ہوئی بستی کو بسانے کے لیے
تم چلے آؤ کسی روز ہنسانے کے لیے
خالی خالی ہیں مرے دل کی نشستیں جاناں
منتظر ہوں میں تمھیں اس پہ بٹھانے کے لیے
اب ترے بعد مجھے کوئی نہیں ہے شکوہ
پر بچا کچھ نہ مرے پاس گنوانے کے لیے
درد پوشیدہ ہوا جاتا ہے آنکھوں سے عیاں
اور دلِ ناداں مصِر اسکو چھپانے کے لیے
آرزو خون سے میرے ہوئی پوری ان کی
پھول بالوں میں فقط ان کے سجانے کے لیے
ضرب سہہ سہہ کے وہ آمادہ بغاوت پہ ہوا
کوششیں خوب ہوئیں دل کو مٹانے لے لئے
نرم گفتار مری سب کا کھلونا ہے بنی
دستِ ہستی میں شکیبؔ اب تو ہنسانے کے لئے
شکیبؔ کلگانوی
No comments:
Post a Comment