Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

شکیب کلگانوی

 دل کی اجڑی ہوئی بستی کو بسانے کے لیے

تم چلے آؤ کسی روز ہنسانے کے لیے


خالی خالی ہیں مرے دل کی نشستیں جاناں

منتظر ہوں میں تمھیں اس پہ بٹھانے کے لیے


اب ترے بعد مجھے کوئی نہیں ہے شکوہ

پر بچا کچھ نہ مرے پاس گنوانے کے لیے


درد پوشیدہ ہوا جاتا ہے آنکھوں سے عیاں

اور دلِ ناداں مصِر اسکو چھپانے کے لیے


آرزو خون سے میرے ہوئی پوری ان کی

پھول بالوں میں فقط ان کے سجانے کے لیے


ضرب سہہ سہہ کے وہ آمادہ بغاوت پہ ہوا

کوششیں خوب ہوئیں دل کو مٹانے لے لئے


نرم گفتار مری سب کا کھلونا ہے بنی

دستِ ہستی میں شکیبؔ اب تو ہنسانے کے لئے


 شکیبؔ کلگانوی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...