یوم پیدائش 08 اگست 1948
عشق آباد فقیروں کی ادا رکھتے ہیں
اور کیا اس کے سوا اہل انا رکھتے ہیں
ہم تہی دست کچھ ایسے بھی تہی دست نہیں
کچھ نہیں رکھتے مگر پاس وفا رکھتے ہیں
زندگی بھر کی کمائی یہ تعلق ہی تو ہے
کچھ بچے یا نہ بچے اس کو بچا رکھتے ہیں
شعر میں پھوٹتے ہیں اپنی زباں کے چھالے
نطق رکھتے ہیں مگر سب سے جدا رکھتے ہیں
ہم نہیں صاحب تکریم تو حیرت کیسی
سر پہ دستار نہ پیکر پہ عبا رکھتے ہیں
شہر آواز کی جھلمل سے دمک اٹھیں گے
شب خاموش کی رخ شمع نوا رکھتے ہیں
اک تری یاد گلے ایسے پڑی ہے کہ نجیبؔ
آج کا کام بھی ہم کل پہ اٹھا رکھتے ہیں
نجیب احمد
No comments:
Post a Comment