Urdu Deccan

Monday, August 9, 2021

زبیر قلزم

 ہمیں بھی تو محبت ہو گئی تھی

نہ پوچھو کیا قیامت ہو گئی تھی


ہمیں جب عشق نے قیدی رکھا تھا

تو جاں دے کر ضمانت ہو گئی تھی


نبھا کا وعدہ کہتے بھول جائیں

جوانی میں حماقت ہو گئی تھی


اٹھائے پھر رہا ہوں لاش اپنی

مری مجھ سے ہلاکت ہو گئی تھی


یہ تم نے کیسے بدلی ہے بتاؤ

تمہیں بھی میری عادت ہو گئی تھی


میں جب تک لوٹا اپنے پاس تب تک

مرے اندر بغاوت ہو گئی تھی


اجل آئی ہے میں صدقے میں واری

اذیت میری قسمت ہو گئی تھی 


بچھڑتے وقت یہ بھی دکھ تھا قلزم

وہ کتنی خوبصورت ہو گئی تھی


زبیر قلزم


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...