گرچہ وعدہ ترا وفا نہ ہوا
پیار کا ختم سلسلہ نہ ہوا
میں بھلا دوں تجھے کہ یاد رکھوں
آج تک یہ ہی فیصلہ نہ ہوا
بیچ دریا کے ڈوبی ہے کشتی
تم سے کچھ بھی تو نا خدا نہ ہوا
پیار کا میں نے کردیا اظہار
یہ ہے افسوس برملا نہ ہوا
سامنے وہ تھا ساتھ غیروں کے
مجھ سے طے وہ بھی فاصلہ نہ ہوا
زندگی سے میں تنگ آیا جب
پھر کبھی کوئی حادثہ نہ ہوا
رند میخانہ پی گیا سارا
شومئ بخت کہ نشہ نہ ہوا
دل جلوں میں نہیں کوئی ایسا
تیرے کوچے کا جو گدا نہ ہوا
عشق کے سارے دور میں عابد
خوشگوار اک بھی واقعہ نہ ہوا
عابد علی عابد حافظ آباد
No comments:
Post a Comment