عقل ہے تو گیان بھی ہو گا
ہے زباں تو بیان بھی ہو گا
جانے والے کو ۔۔ ڈھونڈ لوں گا میں
کچھ کہیں تو نشان بھی ہو گا
سوچ لینا تُو پہلے کرنے سے
عشق میں امتحان بھی ہو گا
آج محفل ہے حُسن والوں کی
صاحبِ صاحبان بھی ہو گا
سارے دشمن نہیں زمانے میں
کوئی تو مہربان بھی ہو گا
شہر سارا تو بدزبان نہیں
ایک تو خوش گمان بھی ہو گا
اِن دنوں جو فقط کہانی ہے
کل وہی داستان بھی ہو گا
قتل پُھولوں کا کرنے والوں میں
دیکھنا باغبان بھی ہو گا
عشق میں سب تو مر نہیں جاتے
کوئی تو نیم جان بھی ہوگا
مانتا ہوں کہ سارے طالب ہیں
طالبِ طالبان بھی ہو گا
حشر کے دن کی ایک خوبی ہے
سیّدِ سیّدان بھی ہو گا
حُسن ہے یہ حساب کے دن کا
جلوہ گر لامکان بھی ہوگا
عاجزی جس نے عابدؔ اپنا لی
ایک دن کامران بھی ہو گا
ایس،ڈی،عابدؔ
No comments:
Post a Comment