یوم پیدائش 07 اگست 1969
ہماری لاش کی تصویر بھی اُتاری گئی
پھر اُس کے پاؤں سے زنجیر بھی اُتاری گئی
شہید ہونے کا پہلے ہُنر اُتارا گیا
پھر آسمان سے شمشیر بھی اُتاری گئی
ثمر کو عزم ِ مصمم کے ساتھ جوڑا گیا
قلم اُٹھانے پہ تحریر بھی اُتاری گئی
فقط بدن ہی گھسیٹا نہیں سر ِبازار
ہمارے خواب سے تعبیر بھی اُتاری گئی
جب آسماں سے محبت کا جرم اُترا تھا
تب انتظار کی تعزیر بھی اتاری گئی
گلے میں ڈالی گئی پہلے نام کی تختی
پھر ایک ایک کی تصویر بھی اُتاری گئی
ہمارے جیسوں کو دیوانگی عطاکرکے
دوائے تلخی ِ تقدیر بھی اُتاری گئی
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment