یوم پیدائش 05 اگست 1957
سر پھر نہ اٹھا پاؤں ترے در پہ جھکا کر
اتنی تو بلندی مجھے اللہ عطا کر
رکھوں ترے ہر غم کو میں سینے سے لگا کر
چھوڑے گی یہ خواہش مجھے دیوانہ بنا کر
آنسو ہوں تو کردے کسی دامن کے حوالے
موتی ہوں تو رکھ لے مجھے پلکوں پہ سجا کر
آئینہ دکھانا تو حریفوں کا عمل ہے
ائے دوست نصیحت نہیں امداد کیا کر
ہم پیاس بجھانے میں رہے دشت بلا کی
وہ آ بھی گئے جاکے سمندر کو جلا کر
آزردگئی شوق کی روداد مفصل
ہم اور بھی رسوا ہوئے یاروں کو سناکر
قدموں سے لپٹ جاتی ہے کمبخت یہ دنیا
دھتکاروں جلیل اس کو جو نظروں سے گرا کر
جلیل نظامی
No comments:
Post a Comment