یوم پیدائش 07 اگست
مجھ پر ترے خیال کا جوہر نہیں کھلا
دل جیسے بادشہ پہ گداگر نہیں کھلا
کھلنے لگیں دھمال کے چکر کی خوبیاں
کیسے کہوں کہ رازِ قلندر نہیں کھلا
نظریں جمائے بیٹھی رہی مشتری پہ میں
ایسے میں برج قوس کا اختر نہیں کھلا
اسرارِ بے خودی میں فقط اس قدر ہوا
قطرہ تو کھل چکا تھا سمندر نہیں کھلا
تن کو جلا کے راکھ بنانے لگی خودی
در دردِ دل کا ذات کے اندر نہیں کھلا
پردے سے پڑ گئے مری آنکھوں پہ درد سے
اشکوں میں تیرے پیار کا منظر نہیں کھلا
اس با حجاب حسن کا جلوہ چھپا رہا
بازارِ شوق میں رخِ انور نہیں کھلا
صد شکر تیری ذات کا پردہ ہی رہ گیا
عالی ترے گناہوں کا دفتر نہیں کھلا
شائستہ کنول عالی
No comments:
Post a Comment