یوم پیدائش 14 سپتمبر 1974
ترے جمال کے ہیں رنگ یا گلاب کے رنگ
کہ شاخ شاخ پہ نکھرے ترے شباب کے رنگ
ورق ورق سے جھلکتی ہیں تیری تصویریں
نکھرتے جاتے ہیں کیسے مری کتاب کے رنگ
بچھڑ کے اس سے خسارا ہوا مرا دگنا
وہ ساتھ لے گیا ، کیا کیا مرے حساب کے رنگ
میں اک جزیرے میں بیٹھا ہوا یہ سوچتا ہوں
دکھاوں کیسے زمانے کو اپنے خواب کے رنگ
نشے میں جھوم رہا تھا فضا کا ہر گوشہ
تمہاری آنکھ سے چھلکے ہیں سب شراب کے رنگ
ادھر بھی دیکھ کلیجہ نہ جل رہا ہو مرا
یہ سرخ سرخ نظر آتے ہیں کباب کے رنگ
ابھی تو اس کے بدن کو ضیا چھوا ہی نہیں
بدل رہے ہیں ابھی سے مرے جناب کے رنگ
ضیاء شاہد
No comments:
Post a Comment