یوم پیدائش 14 سپتمبر 1962
لہو میں رنگِ حنا کو ڈبوکے مار دیا
برہنگی نے حیا کو ڈبوکے مار دیا
رسائی صحرا تک اُس کی،ہوا نے ہونے نہ دی
سمندروں میں گھٹا کو ڈبوکے مار دیا
بہے جو تركِ تعلق پہ اُسکی آنکھوں سےاشک
اُنہیں میں ،میں نے انا کو ڈبوکے مار دیا
ہوئی ہے حُکم سے اُسکے،یہ جب بھی رُوگرداں
خُد ا نے ،خلقِ خُدا کو ڈبو کے مار دیا
ضعیف ماں نے،مرے راستےمیں آنےسے قبل
دُعا سے اپنی ،بلا کو ڈبو کے مار دیا
ہے اشکہائے ندامت کا یہ مرے اعجاز
مری ہر ایک خطا کو ڈبو کے مار دیا
منافقوں کا تو طالب سدا یہ شیوہ رہا
جفا کی تہ میں وفا کو ڈبو کے مار دیا
ضیاءالدین طالب
No comments:
Post a Comment