یوم پیدائش 20 سپتمبر 1908
خودی کا راز داں ہو کر خودی کی داستاں ہو جا
جہاں سے کیا غرض تجھ کو تو آپ اپنا جہاں ہو جا
بیان پایمالی شکوۂ برق تپاں ہو جا
گلستان جہاں کے پتے پتے کی زباں ہو جا
شریک کارواں ہونے کی گو طاقت نہیں تجھ میں
مگر اتنی تو ہمت کر کہ گرد کارواں ہو جا
تزلزل سے بری ہو تیرا استقلال الفت میں
یقین پر یقیں ہو جا گمان بے گماں ہو جا
کسی صورت تو شرح آرزوئے شوق کرنی ہے
زباں چپ ہے اگر اے دل تو آپ اپنی زباں ہو جا
زمانے پر بھروسا کر نہ راز عشق کا اے دل
جہاں تک ہو سکے تو آپ اپنا رازداں ہو جا
تجھے داغوں کے لاکھوں ماہ و انجم مل ہی جائیں گے
اٹھ اے درد دل پر آہ اٹھ کر آسماں ہو جا
کبھی تو عارضی سا اک تبسم لب پہ آنے دے
کبھی تو مہرباں مجھ پر مرے نا مہرباں ہو جا
ترے آنے پہ اے تیر نگاہ ناز میں خوش ہوں
دل بیتاب میں آ کر حساب دوستاں ہو جا
بلندی نام سے اے عرشؔ مل سکتی نہیں تجھ کو
زمین شعر پر اوج سخن سے آسماں ہو جا
عرش ملسیانی
No comments:
Post a Comment