یوم پیدائش 28 اگست 1928
کتنا شرمندہِ مذاقِ درد انسانی ہے آج
قاتلوں کو بھی غرورِ پاک دامانی ہے آج
اُف رے ماضی تیری چیخوں کی صدائے بازگشت
سازِ ہستی کی صدا کس درجہ طوفانی ہے آج
چہرہ اُترا زلف الجھی اور افسردہ نظر
دوستوں کو پھر بھی ارمان ِغزل خوانی ہے آج
کاش مٹنے والے بھی آکر یہ منظر دیکھتے
کتنا سنجیدہ مزاجِ فتنہ سامانی ہے آج
آشیاں لٹنے پہ کل تک پھول ہنستے تھے جہاں
رقص فرما ، دیکھ اُسی گلشن میں ویرانی ہے آج
آپ کے سمٹے ہوئے دامن کو اس کی کیا خبر
اس قدر رسوا خلوصِ اشک افشانی ہے آج
جتنا روشن ہے شرابی کی نگاہوں کا چراغ
اتنی ہی تاریک تر زاہد کی پیشانی ہے آج
ایک لغزش جس کو جوہر عین مستی کہہ سکوں کو
بزم میں یوں تو بہکنے کی فراوانی ہے آج
جوہر صدیقی
No comments:
Post a Comment