یوم پیدائش 05 سپتمبر 1985
مرے ٹھہراؤ کو کچھ اور بھی وسعت دی جائے
اب مجھے خود سے نکلنے کی اجازت دی جائے
موت سے مل لیں کسی گوشۂ تنہائی میں
زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے
بے خدوخال سا اک چہرا لیے پھرتا ہوں
چاہتا ہوں کہ مجھے شکل و شباہت دی جائے
بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے
بس کہ دنیا مری آنکھوں میں سما جائے گی
کوئی دن اور مرے خواب کو مہلت دی جائے
سالم سلیم
No comments:
Post a Comment