Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

اسلم فرخی

 یوم پیدائش 23 اکتوبر 1923


زد پہ آ جائے گا جو کوئی تو مر جائے گا

وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا


خود اسے بھی نہیں معلوم ہے منزل اپنی

جانے والے سے نہ پوچھو وہ کدھر جائے گا


آج اندھیرا ہے تو کل کوئی چراغ امید

مطلع وقت پہ سورج سا نکھر جائے گا


اس طرف آگ کا دریا ہے ادھر دار و رسن

دل وہ دیوانہ کہ جائے گا مگر جائے گا


کوئی منزل نہیں باقی ہے مسافر کے لیے

اب کہیں اور نہیں جائے گا گھر جائے گا


کوئے قاتل میں تہی دست کو جا ملتی نہیں

جو بھی جائے گا لیے ہاتھ میں سر جائے گا


کتنی تاریکی ہے شہر دل و جاں پر طاری

کوئی اندازہ نہیں کون کدھر جائے گا


ایک گلدستہ بنایا تھا پئے راحت جاں

اب یہ اندیشہ ہے ہر پھول بکھر جائے گا


ایک دن ایسا بھی قسمت سے ملے جب اسلمؔ

رقص کرتا ہوا محبوب نگر جائے گا


اسلم فرخی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...