یوم پیدائش 03 اکتوبر 1948
ایسا لگتا ہے مخالف ہے خدائی میری
کوئی کرتا ہی نہیں کھل کے برائی میری
مجھ میں مدفون بڑے شہر معانی تھے مگر
دور تک کر نہ سکا وقت خدائی میری
بے صدا شہر تھا خاموش تھے گلیوں کے مکیں
ایک مدت مجھے آواز نہ آئی میری
خیر خواہی کا رہا یوں تو سبھی کو دعویٰ
چاہتا بھی تو کوئی دل سے بھلائی میری
شب کی دہلیز پہ قزاق ضرورت تو نہیں
چھین لیتا ہے جو دن بھر کی کمائی میری
کچھ مرے علم نے بھی مجھ کو فضیلت بخشی
فن سے نسبت نے بھی توقیر بڑھائی میری
مجھ کو مجھ تک ہی نہ محدود سمجھنا سیفیؔ
لا مکاں سے بھی پرے تک ہے رسائی میری
بشیر سیفی
No comments:
Post a Comment