جس حد تلک بھی راہِ وفا لے چلی، گئے
ہم زہر تک تو نام تِرا لے کے پی گئے
جینے کی جُستجو میں ہمیں موت آ گئی
مرنے کی آرزو تھی، مگر اور جی گئے
گھر سے نکل کے، پاس ہی، اِک میکدہ بھی تھا
ہم کو قسم ہے آپ کی جو ہم کبھی گئے
ہم سے غمِ فراق کی شدًت نہ پوچھیئے
ہم اِنتہائے کرب میں ہونٹوں کو سی گئے
تھی تشنگی ضرور، مگر زندگی تو تھی
کیا شے ہمیں پِِلائی کہ ہم جاں سے ہی گئے
دیکھا جمالِ یار تو قائم رہے نہ ہوش
ایسا لگا کہ جیسے ابھی تھے، ابھی گئے
عارف ہجومِ یاس میں پژمردگی کے ساتھ
لب پر لئے جہان سے پھیکی ہنسی گئے
محمد عارف
No comments:
Post a Comment