یوم پیدائش 28 اکتوبر 1922
زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد
مل گیا وہ پھر کہیں دل کے ٹھہر جانے کے بعد
میں نے وہ لمحہ پکڑنے میں کہاں تاخیر کی
سوچتا رہتا ہوں اب اس کے گزر جانے کے بعد
کیسا اور کب سے تعلق تھا ہمارا کیا کہوں
کچھ نہیں کہنے کو اب اس کے مکر جانے کے بعد
مل رہا ہے صبح کے تارے سے جاتا ماہتاب
رات کے تاریک زینے سے اتر جانے کے بعد
کیا کروں آخر چلانا ہے مجھے کار جہاں
جمع خود کو کر ہی لیتا ہوں بکھر جانے کے بعد
زخم اک ایسا ہے جس پر کام اب کرتا نہیں
وقت کا مرہم ذرا سا کام کر جانے کے بعد
چپ ہیں یوں چیزیں کہ کھل کر سانس بھی لیتی نہیں
جیسے اک صدمے کی حالت میں ہوں ڈر جانے کے بعد
ہیں نواح دل میں شاہیںؔ کچھ نشیبی بستیاں
ڈوبتا رہتا ہوں ان میں پانی بھر جانے کے بعد
جاوید شاہین
No comments:
Post a Comment