Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

جاوید شاہین

 یوم پیدائش 28 اکتوبر 1922


زخم کوئی اک بڑی مشکل سے بھر جانے کے بعد

مل گیا وہ پھر کہیں دل کے ٹھہر جانے کے بعد


میں نے وہ لمحہ پکڑنے میں کہاں تاخیر کی

سوچتا رہتا ہوں اب اس کے گزر جانے کے بعد


کیسا اور کب سے تعلق تھا ہمارا کیا کہوں

کچھ نہیں کہنے کو اب اس کے مکر جانے کے بعد


مل رہا ہے صبح کے تارے سے جاتا ماہتاب

رات کے تاریک زینے سے اتر جانے کے بعد


کیا کروں آخر چلانا ہے مجھے کار جہاں

جمع خود کو کر ہی لیتا ہوں بکھر جانے کے بعد


زخم اک ایسا ہے جس پر کام اب کرتا نہیں

وقت کا مرہم ذرا سا کام کر جانے کے بعد


چپ ہیں یوں چیزیں کہ کھل کر سانس بھی لیتی نہیں

جیسے اک صدمے کی حالت میں ہوں ڈر جانے کے بعد


ہیں نواح دل میں شاہیںؔ کچھ نشیبی بستیاں

ڈوبتا رہتا ہوں ان میں پانی بھر جانے کے بعد


جاوید شاہین


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...