یوم پیدائش 20 اکتوبر 1951
اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے
سب نے سیکھے ہیں اب آداب زمانے والے
دل جلاؤ یا دیئے آنکھوں کے دروازے پر
وقت سے پہلے تو آتے نہیں آنے والے
اشک بن کے میں نگاہوں میں تری آؤں گا
اے مجھے اپنی نگاہوں سے گرانے والے
وقت بدلا تو اٹھاتے ہیں اب انگلی مجھ پر
کل تلک حق میں مرے ہاتھ اٹھانے والے
وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا
درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے
اک نظر دیکھ تو مجبوریاں بھی تو میری
اے مری لغزشوں پر آنکھ ٹکانے والے
کون کہتا ہے برے کام کا پھل بھی ہے برا
دیکھ مسند پہ ہیں مسجد کو گرانے والے
یہ سیاست ہے کہ لعنت ہے سیاست پہ صداؔ
خود ہیں مجرم بنے قانون بنانے والے
صدا انبالوی
No comments:
Post a Comment