یوم پیدائش 15 اکتوبر 1933
مرے وجود کے دوزخ کو سرد کر دے گا
اگر وہ ابر کرم ہے تو کھل کے برسے گا
گلہ نہ کر کہ ہے آغاز شب ابھی پیارے
ڈھلے گی رات تو یہ درد اور چمکے گا
قدح کی خیر سناؤ کہ اب کے بارش سنگ
اگر ہوئی تو طرب زار شب بھی ڈوبے گا
یہ شہر کم نظراں ہے ادھر نہ کر آنکھیں
یہاں اشارۂ مژگاں کوئی نہ سمجھے گا
میں اس بدن میں اتر جاؤں گا نشے کی طرح
وہ ایک بار اگر پھر پلٹ کے دیکھے گا
رواں تو ہوں سوئے افلاک آرزو لیکن
یہ زور موج ہوا بازوؤں کو توڑے گا
اگر ہے شوق اسیری تو موند لے آنکھیں
تو عمر بھر در و دیوار بھی نہ دیکھے گا
تلاش قافلۂ زندگی ہے اب بے سود
یہ رہگذار نفس پر کہیں نہ ٹھہرے گا
نہ آنکھ میں کوئی جنبش نہ پاؤں پر کوئی گرد
جہاں سے اتنا بھی محتاط کون گزرے گا
رہے گی دل میں نہ جب کوئی بھی خلش محسنؔ
بھلا چکا ہے جسے تو اسے پکارے گا
محسن احسان
No comments:
Post a Comment