یوم پیدائش 15 اکتوبر
اٹھا کے سر کو چلے خوبرو جوانی ہو
پھر اس کے ہاتھ میں اسلاف کی نشانی ہو
امیرِ شہر مری آخری وصیّت ہے
مجھے جو قتل کرے شخص خاندانی ہو
جہاں پہ فاختہ بے خوف گھونسلے سے اڑے
ترے جہان میں ایسی بھی راجدھانی ہو
ہے شاعری کا اگر شوق تو ضروری ہے
سلیس لہجہ ہو اشعار میں روانی ہو
یہ سانپ بھی مرے لاٹھی بھی اپنی بچ جائے
بتاؤ راستہ ایسا جو درمیانی ہو
حضور آپ کی آنکھوں نے بات چھیڑی تھی
یہ بات ختم بھی پھر آپ کی زبانی ہو
تمھارے جانے پہ کچھ اس طرح لگاہے مجھے
کہ جیسے گھر میں کوئی مرگِ ناگہانی ہو
یہی ہے پیار کہ ہو دل میں بات پوشیدہ
ملو تو آنکھوں سے پھر اس کی ترجمانی ہو
مری غزل پہ ہو گر تبصرہ تو یاد رہے
نہ خوش گمانی ہو آغا. نہ. بدگمانی ہو
جاویدآغا
No comments:
Post a Comment