بہار رنگ مرے چار سو ابھی تک ہے
دوام حسن ہے وہ ماہ رو ابھی تک ہے
سنا تھا فرقتیں حلیہ بگاڑ دیتی ہیں ؟
کہاں کا ہجر کہ وہ خوبرو ابھی تک ہے
ہو رنج کیا اسے محرومیءِ تمنا کا
انا کے باب میں وہ سر خرو ابھی تک ہے
زمانے والے اسے مجھ سے دور لے جائیں
وگرنہ خواب میں تو گفتگو ابھی تک ہے
وہ صفحہ ڈائری کا اب بھی ہے مہکتا سا
کہ خشک پھول میں بھی رنگ و بو ابھی تک ہے
یہ کالی شال میں ہر پل جو اوڑھے رکھتی ہوں
یہ پہلے عشق کی تھی آبرو ابھی تک ہے
ہما علی
No comments:
Post a Comment