یوم پیدائش 14 اکتوبر
خاک ہونے کا نہیں ، موجوں کا مارا ہوا میں
خشکی و تر کی کشاکش میں کنارا ہوا میں
جنگ آمادہ ہُوں دنیا سے بس اک تیرے لیے
خود سے ہاری ہوئی پرچھائیں سے ہارا ہوا میں
لوگ بڑھ بڑھ کے بغل گیر ہوا چاہتے ہیں
چند روزہ ترے کوچے میں گذارا ہوا میں
تو نے دیکھا ہے سدا دیکھنے والوں کی طرح
کب تری چشم تمنا کو گوارا ہوا میں
ہجر کاٹیں گی کہاں تک مری حوریں شہروز
عرش کا فرش پہ مدت سے اتارا ہوا میں
شہروز خاور
No comments:
Post a Comment